نظم

سمے کا دھارا :پروفیسریوسف خالد

صبحِ کاذب اور صبح صادق کی سرحد پر
سمے کا ایک مختصر دھارا پہرے داری کرتا ہے
جہاں تاریکی اور اجالا بغل گیر ہوتے ہیں
اس مختصر سے پل میں کئی گہرے بھید ہیں
رات اپنے کچھ مکمل کچھ نا مکمل خوابوں کی پوٹلی
سرحد پر رکھ کرواپس جا چکی ہوتی ہے
میں نے اکثر
چمگادڑوں کو اس ملگجی ماحول میں پاگلوں کی طرح
ادھر ادھر چکر لگاتے دیکھا ہے
ان کی اڑان میں ایک عجیب طرح کا ہیجان ہوتا ہے
خدا معلوم کیا تلاش کرتی ہیں
ان کا رقص جب مکمل ہوتا ہے
تو جانے سے پہلے
یہ پاگل جتھہ خوشنما پرندوں اور ننھی چڑیوں کو
صبح کے دلفریب ماحول میں پھیلی رعنائیوں سے لطف اٹھانے کی اجازت دان کرتا ہے
بادِ صبا چہکار اور مہکار سے بھری صبح کے
اس پر کیف منظر سے
زندگی کے لیے نئے امکانات کی زنبیل تیار کرتی ہے
اور گلیوں بازاروں میں
بند دروازوں پہ دستک دیتی
مسکراہٹیں تقسیم کرتی گزر جاتی ہے
میری حیرت کا در کھلا رہتا ہے
میں ایک طویل دن کی پگڈنڈیوں پر بے تکان چلتے رہنے کے لیے کمر بستہ ہوتا ہوں
اور ایک نئی صبح کا انتظار کرتا ہوں

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. رفیق سندیلوی

    جنوری 30, 2022

    بہت عمدہ نظم

  2. سجل احمد

    جنوری 30, 2022

    بہت خوبصورت انداز تحریر۔۔۔سچ میں جہاں دو وقت آپس میں ملتے ہیں ایک عجیب سحر ہوتا ہےان اوقات میں خواںوہ وقت شام ہو یا طلوع سحر ۔۔۔آپکی تحریر میں بھی ایساہی سحر لیے ہوۓ ہے۔۔۔سلامت رہیں

  3. Sajal ahmad

    جنوری 30, 2022

    بہت خوبصورت انداز تحریر۔۔۔سچ میں جہاں دو وقت آپس میں ملتے ہیں ایک عجیب سحر ہوتا ہےان اوقات میں خواںوہ وقت شام ہو یا طلوع سحر ۔۔۔آپکی تحریر میں بھی ایساہی سحر لیے ہوۓ ہے۔۔۔سلامت رہیں

  4. گمنام

    جنوری 30, 2022

    عمدہ

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی