نظم

سلام بحضور امام عالی مقام : نجیب احمد

لہجہ شہِ لولاک  کے مانند  کھرا تھا
پیاسا تھا سمندر کی طرح بول رہا تھا

پتے جو درختوں سے گرے تھے وہ ہرے تھے
ہر پھول کے آغوش میں خوشبو کا دیا تھا

کچھ ایسی حضوری کہ نہ دیکھی نہ سنی تھی
سر تن سے جدا ہو کے بھی سجدے میں پڑا تھا

آنکھوں میں ہے ٹھہرا ہوا وہ آخری لمحہ
جب تیز ہواؤں نے بھی دم سادھ لیا تھا

نیزے پہ کھلی کب ترے قامت کی قیامت
ہر  مردِ خدا  نورِ خدا  دیکھ  رہا  تھا

خورشیدِ  امامت ،  مہِ  آفاقِ دیانت
کس نور کا گھر خیمۂ ساداتِ رضا تھا

اِک نکتہ جگہ پائے نہ قرآن سے ہٹ کر
قرآن  تھا  کہ  پیرہنِ  آلِ عبا  تھا

راست آئی نجیبؔ آیۂ تطہیر اُنھی پر
یہ فضل فقط آلِ محمدﷺ پہ ہوا تھا

 

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. نوید صادق

    اگست 30, 2020

    سبحان اللہ

نوید صادق کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی