نظم

خزاں کی شام : تنویر اقبال

خزاں کے رنگ اڑاتی شام
بے رونق بنفشی آسماں
اونچےپہاڑوں سےاترتی
حبس کی چادر لئے بوڑھی ہوا۔
دن بھرجھلستی دھوپ برساتا ہواشرمندہ
شرمندہ افق کی اوٹ میں جاتا ہوا سورج
بھٹکتے ۔دوڑتے۔آوارہ۔پیاسےبادلوں کا غول
پیڑوں سےلٹکتی زرد ننگی ٹہنیاں۔
کملائے پھولوں کی اکھڑتی پتیاں۔
دوپہر کی شدت سے گزرے
کچھ تھکے ہارے پرندے
اپنے اپنے گھونسلوں کی سمت اڑتے۔
واپڈا کا اکّھ مٹکّا
چائے پانی سب پہنچ سے دور۔
گیٹ سے باہر۔اکیلی دور تک جاتی سڑک پر جانے انجانے کئی چہرے۔
ملوں کی چمنیاں سگرٹ کے کش لیتی۔
دھواں باہر اگلتی۔دن کی بےآرامی سے نالاں
اور پسینوں میں شرابورآدمی
بے روح کارندے گھروں کو لوٹتے ۔
شام کے تھیٹر میں بیٹھا
غم زدہ تنہا تماشائی
نگہ کے کینوس پر پینٹ کرتا میں۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی