نظم

آزادیِ کشمیر ۔۔۔ نظم : فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب
فیض محمد صاحب
کئی دنوں سے
فاختہ کوے اور چڑیاں
مانوس چہروں کی متلاشی
درختوں پہ بیٹھے
دھویں سے کھانس رہے ہیں
سب کالی سڑکیں
سرخ ہوئی خاموش
سوال کناں ہیں
سکولوں میں لگی گھنٹیاں
ہوا میں جھول جھول کر
بجانے والے کی منتظر
کرسیوں کی دھول سے پریشاں ہیں
جڑی دیواریں اندھیرے میں
ایک دوسرے کو دن بھر کا حال
سنا کر روتی ہیں
ننھے طفل گلی میں کھیلنے پہ
بضد ہیں
زندگی مسلسل فاقوں سے
لاغر ہوتی جا رہی ہے
مگر ہے جذبہِ جواں
صدیوں سے اور رہے گا
خوں کی آخری بوند
بہنے تک کہ
جب تک نہ ملی گی آزادیِ کشمیر

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی