فیض محمد صاحب
کئی دنوں سے
فاختہ کوے اور چڑیاں
مانوس چہروں کی متلاشی
درختوں پہ بیٹھے
دھویں سے کھانس رہے ہیں
سب کالی سڑکیں
سرخ ہوئی خاموش
سوال کناں ہیں
سکولوں میں لگی گھنٹیاں
ہوا میں جھول جھول کر
بجانے والے کی منتظر
کرسیوں کی دھول سے پریشاں ہیں
جڑی دیواریں اندھیرے میں
ایک دوسرے کو دن بھر کا حال
سنا کر روتی ہیں
ننھے طفل گلی میں کھیلنے پہ
بضد ہیں
زندگی مسلسل فاقوں سے
لاغر ہوتی جا رہی ہے
مگر ہے جذبہِ جواں
صدیوں سے اور رہے گا
خوں کی آخری بوند
بہنے تک کہ
جب تک نہ ملی گی آزادیِ کشمیر