کالم

پہچانتے تو ہو گے ندا فاضلی کو تم

 کالم نگار: نوید صادق

ندا فاضلی نے غزل، نظم، فلمی گیت اور مکالمہ نگاری سے شہرت پائی۔ تقسیم کے وقت ان کا خاندان پاکستان چلا آیا لیکن انھوں نے بھارت ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ یوں زندگی کے ابتدائی دنوں میں خاندان سے بالکل الگ تھلگ زندگی گزارنے والے ندا فاضلی کی شاعری میں تنہائی اور اس سے متعلقہ جذبات و احساسات نے اپنی جگہ بنا لی۔ یہ تنہائی زندگی بھر ان کے ساتھ رہی۔ بھری انجمن میں تنہائی کا احساس، بھرے پرے شہروں میں انسان کا خالی پن اور بے چہرگی ان کی غزل کے خاص موضوعات ہیں۔ انھیں بڑے شہروں میں افراد کے منافقانہ رویے، خود غرضی اور مفاد پرستی کھلتے ہیں تو وہ اپنے گاؤں کو یاد کرنے لگتے ہیں جہاں سب مل جل کر زندگی گزارتے تھے، سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، جہاں انسانی رشتوں کو ذاتی مفادات پر فوقیت حاصل تھی ۔ مذہب کے نام پر ہونے والے فسادات کے ردعمل میں وہ اخلاص اور مذہبی رواداری کا پرچارکرتے نظر آتے ہیں۔ وہ حال میں اقدار کو پامال ہوتے دیکھتے ہیں تو ماضی اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ ان کے دھیان کے قرطاس پر دستک دینے لگتا ہے۔ اس حوالہ سے ان کی نظم’’ بجلی کا کھمبا‘‘ لائقِ مطالعہ ہے۔
ندا فاضلی کی غزلوں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے، اکیلا ہو گا

کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں کئی برسوں سے
ہر جگہ ڈھونڈتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا

من کا سودا، من کا مول
کیسا مذہب گاؤں میں

اُس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہو گا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہو گا

پہچانتے تو ہو گے ندا فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا

ندا فاضلی نے کئی مشہور فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں رضیہ سلطانہ، تمنا، اس رات کی صبح نہیں، ناخدا، آپ تو ایسے نہ تھے، یاترا، سرفروش اور سُر وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے درج ذیل گیت بہت مشہور ہوئے:

ع تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے
ع دل کی تنہائی کو آواز بنا لیتے ہیں
ع ہوش والوں کو خبر کیا، زندگی کیا چیز ہے
ع گھر سے مسجد ہے بہت دور
ع میری آنکھوں نے چنا ہے تجھ کو دنیا دیکھ کر
ع بہت خوب صورت ہیں آنکھیں تمھاری
ع کبھی شام ڈھلے تو مرے دل میں آ جانا
ع جب سامنے تم آ جاتے ہو، کیا جانیے، کیا ہو جاتا ہے
ع نہ وہ انکار کرتی ہے نہ وہ اقرار کرتی ہے
ع چاند کے پاس جو ستارہ ہے، وہ ستارہ حسین لگتا ہے

ندا فاضلی نے شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین بھی لکھے، خاکہ نگاری کی، دو ناول تحریر کیے۔ ان کی نثری و شعری تصانیف میںلفظوں کا پل، مور ناچ،آنکھ اور خواب کے درمیان ، شہر میرے ساتھ چل تو، ، سفر میں دھوپ تو ہو گی، کھویا ہوا سا کچھ، ، دنیا ایک کھلونا،دنیا میرے آگے، دیواروں کے بیچ، اور دیواروں کے باہر شامل ہیں۔
ندا فاضلی کو ان کی خدمات کے صلے میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، غالب ایوارڈ ، سٹار سکرین ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار ، بالی وڈ مووی ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار اور پدم شری اعزازسے نوازا گیا۔
ندا فاضلی 1938ء کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ 8فروری 2016ء کو ممبئی (بھارت) میں وفات پائی۔ان کا اصل نام مقتدا حسن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی