غزل

غزل : یونس متین

سب رویے بدلتے جاتے ہیں
لوگ زندہ ہیں مرتے جاتے ہیں

یہ مشینیں نہیں بلائیں ہیں
شہر سارے اُجڑتے جاتے ہیں

اپنے ہاتھوں میں دائرے پکڑے
لوگ خود میں اترتے جاتے ہیں

تیز اتنا گھما نہ دھرتی کو
ہاتھ سے دن نکلتے جاتے ہیں

راستے ہیں کہ ننگی بد روحیں
اب گھروں کو بھی ڈرتے جاتے ہیں

اپنے چہرے نہیں بدلتے ہم
آئنوں کو بدلتے جاتے ہیں

پھیلتےجارہے ہیں شہر ،اور ہم
اپنے اندر سمٹتے جاتے ہیں

ذندگی تم نے کس کو دیکھ لیا !
سر سے آنچل ڈھلکتے جاتے ہیں

سامنے  آئنہ نما ہے کوئی
دیکھتے ہیں سنورتے جاتے ہیں

ہنس موتی خود اپنے اشکوں کے
چُگتے  جاتے  ہیں مرتے  جاتے ہیں

جوگیا ! ہاتھ کی لکیروں میں
ؔخطِ ہجراں ابھرتے جاتے ہیں

ہم ہیں آوارگانِ شوق متین
ہم اُجڑ کر بھی بستے جاتے ہیں

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. اوصاف شیخ

    مئی 16, 2021

    بہت اچھی غزل ہے ۔۔۔ وااااہ

اوصاف شیخ کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں