کیوں جگر میں ناخنوں سے اب کھدائی ہو رہی ہے
یا کہیں باضابطہ تم سے جدائی ہو رہی ہے
تیرے ملنے سے ہوئی تخلیق کی تکمیل ! دوستا
تیرے ہاتھوں سے ہماری رونمائی ہو رہی ہے
اب نکل کے مجھ سے ہی دست و گریباں ہو رہے ہیں
اب مری اندر کے لوگوں سے لڑائی ہو رہی ہے
میں نے تیری جان لیوا سرد مہری بانٹ ڈالی
تیری تحفے میں ملی نفرت وبائی ہو رہی ہے
منہدم جو ہو رہا ہے میرے سپنوں کا محل تو
نیند سے بھی ہائے خوابوں کی بدائی ہو رہی ہے
—————-