غزل

غزل : سیدکامی شاہ

سید کامی شاہ
بے خبر، بے نشاں چلے گئے ہیں
یہ مرے دن کہاں چلے گئے ہیں
زندہ کر کے مکالمے کی فضا
خوش گماں، بد گماں چلے گئے ہیں
ہر طرف رہ گیا ہے سناٹا
سب جواں، نوجواں چلے گئے ہیں
کس قدر پیار کرنے والے تھے
لوگ جو ناگہاں چلے گئے ہیں
کچھ ذہین و فطین طالبِ علم
چھوڑ کر امتحاں چلے گئے ہیں
بیچتے تھے دوائے دل وہ یہاں
بند کر کے دُکاں چلے گئے ہیں
سرخ اور سبز کچھ پرندے تھے
اُڑ کے جانے کہاں، چلے گئے ہیں
کوئی واپس وہاں سے آتا نہیں
جانے والے جہاں چلے گئے ہیں
`میری ہر بات بے اثر ہی رہی`
سب سخن رائیگاں چلے گئے ہیں،،

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں