غزل

غزل : جاوید دانش

خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے
رکھنا ہے تجھے یاد  بھلانا تو  نہیں   ہے

کھینچا ہے محبت سے ترے شہر کا نقشہ
حالانکہ  یہ چاہت کا  زمانہ تو  نہیں  ہے

پلکوں پہ  بٹھایا  ہے جسے  پیار دیا ہے
اُس نے مجھے پہلو میں بٹھانا تو نہیں ہے

کانٹوں نے بنانا ہے سفر اور بھی مشکل
کانٹوں نے مرا ساتھ نبھانا تو نہیں ہے

آیا نہیں ملنے کو  وہ  ناساز طبیعت
اب دیکھنا یہ ہے کہ بہانا تو نہیں ہے

جا کر اُسے روکو کہ نہ آۓ مری جانب
آنے  کا  ارادہ  ہے  روانہ  تو  نہیں ہے

رونق ہیں ترے گھرکی یہ معصوم فرشتے
دینا  ہے  انھیں پیار  رُلانا تو  نہیں  ہے

ممکن ہے کسی روز اسے چھوڑ دوں دانشؔ
دنیا میں پڑاٶ  ہے  ٹھکانا  تو  نہیں ہے

جاوید دانشؔ

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. یوسف خالد

    دسمبر 2, 2020

    آیا نہیں ملنے کو وہ ناساز طبیعت
    اب دیکھنا یہ ہے کہ بہانا تو نہیں ہے

    بہت خوب

  2. شبیر احمد قادری ، فیصل آباد ۔

    دسمبر 2, 2020

    بہت عمدہ اور شاندار کلام ۔

شبیر احمد قادری ، فیصل آباد ۔ کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں