افسانہ

انکشاف : فریدہ غلام محمد

اس نے باہر جھانکا آسمان پر تاحد نظر بادل چھائے ہوئے تھے ۔ہلکی ہلکی ہوا نے حبس کازور توڑ دیا تھا ۔دور گھاس پر ایک بلی سوئی ہوئی تھی ۔اس پر جامن کے درخت کا سایہ پڑ رہا تھا ۔جانوروں کی زبان سمجھ آ جائے تو تب ہی پتہ چلے ۔جامن کے درخت تلے وہ کیسا محسوس کر رہی تھی ۔بےساختہ اسے اپنا اور آغا کا خیال آیا۔
وہ دونوں تو انسان تھے پھر ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھ نہیں پائے تھے۔
وہ ٹھنڈے میٹھے دن تھے ۔بابا نے اسے گاؤں جانے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ آغا سرمد ادھر آنے کی بجائے سیدھا گاؤں گیا تھا ۔بابا کو ہفتہ دیر تھی مگر وہ اس سے ملنا چاہتی تھی ۔ وہ ایسے خوش تھی جیسے پوری دنیا مل گئ ہو ۔غلط بھی کیا تھا دادی اس کی پوری دنیا ہی تھیں اور پھر آغا جس سے اس کی سوچ شروع ہوتی تھی اور اسی پر ختم ۔پانچ سال یورپ گزارنے کے بعد ہر روز کلینڈر پر کراس لگانا ،انگلیوں پر دن گننا یہ کوئ آسان کام نہیں تھا ۔وہ جانتی تھی ۔آغا سوچ رہا ہو گا وہ اسے بھول گئ ہو گی ۔آغا کو بھولنے کے لئے پانچ صدیاں بھی کم تھیں ۔
اب وہ چھوٹی بچی نہیں تھی ۔کالج میں تھی ۔نین نقش تو خوبصورت تھے ہی اوپر سے جوانی کا جادو پھر آغا سے ملنے کا خمار۔

"دادی جان یہ آغا کدھر ھے” ؟جب سارا سامان سیٹ کر چکی تو پھر رہ نہ سکی ۔کیونکہ وہ کہیں نظر نہیں آیا
"سرمد ادھر ھے بی بی” ۔ایک بھاری آواز نے اسے چونکا دیا ۔اس نے مڑ کر دیکھا ۔کتنا بدل گیا تھا وہ بھی۔چھ فٹ سے لمبا تو وہ تھا ہی مگر بھرے بدن کے ساتھ اس کی شخصیت اور نکھر گئ تھی” "۔کیا دیکھ رہی ہو””
؟اس کی آواز میں شرارت تھی یا شاید اسے لگا ۔
"آغا یہ تم ہی ھو نا” ؟
"ہاں کہو تو شناختی کارڈ دکھاؤں”
"تم نے کبھی رابطہ بھی تو نہیں رکھا ”
اس کے لہجے میں شکوہ تھا ۔
"یہ ہم دونوں بیچ طے ہوا تھا یاد نہیں ”
"یاد ہے ”
اس نے منہ بسورا
"تم بہت چھوٹی تھی بلکہ میں سب چھوٹوں کا بڑا تھا ۔پھر میں باہر چلے گیا ۔بابا سے رابطہ تھا ۔”
"بابا نے کبھی نہیں بتایا ۔”
"تم پڑھاکو لڑکی ھو بتایا بھی ھو گا تو تم نے سنا نہیں ھو گا ”
۔وہ مسکرایا
"۔ اچھا پھر ملو مجھ سے”
۔وہ اس کے گلے لگ گئ "۔اے ہے اب بڑی ہو گئ ہے تو ”
۔۔۔۔ دادی نے ٹوکا” ۔نہیں دادو یہ میرا آغا ہے”
۔آغا کی کیا کیفیت تھی وہ جان نہیں سکی اور اس اثناءمیں
۔دادی جان نے کھانے کے لئے بلا لیا ۔وہ پہلا دن تھا جب وہ بہت خوش تھی ۔۔
وہ چھوٹا سا تھا جب پھپھو نے گود لیا تھا۔مگر ابھی چھوٹا ہی تھا جب پھپھو اور پھوپھا چل بسے ۔دادی نے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا ۔اس سے بارہ سال بڑا تھا ۔اسے ہمیشہ بچوں کی طرح لیتا تھا وہ اس کی لاڈلی تھی ۔بابا کی ڈانٹ سے بارہا بچاتا تھا
اسے معلوم تھا اسے کون سے رنگ پسند ہیں کیسی کہانیاں پڑھتی ہے کیسا میوزک اچھا لگتا ھے ۔وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی پسندیدہ چیزیں لاتا ۔جب بھی کزنز میں لڑائ ہوتی وہ اس کو بچاتا

مگر ایک بات اسے بہت تکلیف دیتی۔وہ اس سے بالکل بچوں والا سلوک کرتا تھا۔وہ آج بھی ایسا تھا۔اب تو وہ پورے چوبیس سال کی تھی ۔اسے یقین تھا ۔آغا اب اسے دیکھے گا تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگے گا۔
اسے یاد تھا جب وہ یورپ جا رہے تھا تو وہ اس کے بازو سے لگ کر یوں رو رہی تھی جیسے کوئ اس سے من چاہا کھلونا چھین رہا ہو۔
"بابا ذرا اسے دیکھیں میرا بازو ہی نہیں چھوڑ رہی ”
"ارے بھی تم نے اتنا دلار دیا کیوں تھا اب بھگتو”
بابا صاف مکر گئے تھے ۔
آغا اسکے آنسو صاف کر رہا تھا ۔دیکھو مومی "میں جلد آ جاؤں گا نا ”
"میرے اتنے لاڈ کون اٹھائے گا”
۔بےبسی سے اس نے پھر سر اسکے بازو پر رکھ دیا تھا
آغا نے بہت پیار سے اس کا سر سہلایا
"میں ہی اٹھاؤں گا مگر آ کر ۔وہاں میں صرف پڑھنے جا رہا ہوں اور پھر دیکھو نا تمہاری بھی تو اسکولنگ ھے” ۔
اس نے روتے روتے سر اٹھایا اور آغا کی بھوری آنکھوں میں جھانکا
آغا اسے روتے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا ۔اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی
"اچھا ادھر آؤ ”
اس نے سرمد کو اپنی طرف کھینچا اور ایک کونے پر لے آئ
"آغا تم چلے جاؤ مگر مومی کو نہیں بھولنا تم نے مومی کو اتنی محبت سے رکھا ہے کہ وہ کانچ کی بن گئ ہے ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ پھوٹ جائے گی ۔جب تک پڑھ کر نہیں آتے میں بات نہیں کروں گی اور یہ میرا وعدہ ہے میں دل لگا کر پڑھوں گی”
اور ۔۔۔۔ اور۔ وہ رک گئ
"اور کیا مومی ؟
"اور یہ کے میں تم سے محبت کرتی ہوں جیسے سسی نے پنوں سے کی اور جب تم آؤ گے تو میں تم سے شادی کروں گی ۔”
سرمد نے اس کی سنہری رنگت میں شرمائے ہوئے کچھ رنگ دیکھے ۔
وہ اس لڑکی کا کیا کرے
سنو مومی! تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو اور اس عمر میں یہی لگتا ہے جیسا تم محسوس کر رہی ہو ۔مجھے یقین ہے تمہیں بہت اچھا ہمسفر ملے گا ۔اور تمہیں پنوں بھی ملے گا جو صرف تمہارا ہو گا مگر میں وہ نہیں ہوں اس نے اس کے گال سہلائے
"چلو بھی سرمد ”
بابا کی آواز پر اس نے بےبسی سے اسے دیکھا
"اب میں جاؤں ؟”
وہ اجازت طلب کر رہا تھا ۔یہ ٹھیک تھا وہ سب چھوٹوں سے بڑا تھا ۔سب کے لاڈ اٹھاتا تھا مگر یہ لڑکی بہرحال اس کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتی تھی
"ہاں اور میں بھی خود کو سمجھا لوں گی تب تک ”
"یہ ہوئ نا بات گڈ گرل۔۔۔ اس نے اس کے سر کو تھپتھپایا اور باہر چلا گیا ۔
اس نے بھی اسٹڈی میں دل لگا لیا اور اس کی ٹوہ نہیں لگائی وہ اس کو بھول جانا چاہتی تھی ۔وہ جب چوبیس کی ہو گی تو وہ چھتیس کا ہو جائے گا ۔کیا خبر وہ شادی کر کے آئے ۔کیا عمر کا فرق ہی محبت کا تعین کرتا ہے کیا محبت سوچتی ہے کہ اسے دیکھ بھال کے بندہ ڈھونڈنا ہے ۔محبت ،عقل سے کام لینے لگے تو پھر وہ کوئ اور شے ہوگی محبت نہیں۔محبت میں عقل کی ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی یہ اس کا کہنا تھا
اس کی دوستوں نے جب بھی اس سے پوچھااس کے پاس کوئ جواب نہیں تھا ۔
بابا اسی لئے گاؤں آنے والے تھے کہ دادو اسے اور آغا کو گھرلے آئیں ۔پھر شاید کوئ پروجیکٹ تھا جو دونوں مل کر شام کوٹ میں لگانے والے تھے ۔

زندگی کے وہ پل لوٹ آئے تھے ۔اس نے آغا سے پورے پانچ سالوں کی روداد سنی تھی ۔اپنی بتائ تھی ۔شام کو دادی کے ساتھ بیٹھنا ،آغا کے ساتھ باہر گھومنا اور اس کے من پسند کھانے بنانا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا ۔
مگر وہ جیسا سوچتی تھی ایسا کچھ نہیں ہوا وہ اس کے حسن سے متاثر نہیں ہوا ۔اس نے اب بچوں کی طرح اسے لیا۔وہ کچن میں کھانا تیار کر رہی تھی جب سرمد گھر آیا۔

"ارے آج تو بڑی خوشبوئیں آ رہی ہیں”
۔سرمد نے کچن میں جھانکا ۔۔۔۔۔کتنا نکھر گیا تھا وہ
"کم کھایا کرو وہ تمہاری کہیں انکار نہ کر دے شادی سے ”
۔۔۔۔دادی جان نے کھیس بچھاتے ہوئے کہا تو سرمد نے ایک دم گھبرا کر اسے دیکھا
صرف ایک لمحہ کو اس کا رنگ زرد ہوا تھا مگر پھر وہ سکون سے سالن ڈونگے میں ڈالنے لگی ۔
"دونوں گونگے ہو گئے ہو کیا؟”
دادی نے وہیں سے پکارا
"آغا تم یہ پلیٹیں اٹھا لو اور چلو وگرنہ دادی نے شور ڈال دینا ہے ان کو بھوک کے وقت کھانا نہ ملے تو شوگر ڈاؤن”
اس نے چہرے کے تاثرات چھپا لئے تھے ۔وہ بھکاری نہیں تھی ۔۔کہ روز روز جھولی پھیلا کر بھیک مانگتی ۔وہ اتنے سال دور رہ کر یہ جان گئی تھی کہ جو مانگنے سے ملے وہ محبت نہیں ہو سکتی ۔جس کا دل اس پر نہیں کھلا وہ زبردستی تو دھکا مار کر اندر نہیں جا سکتی ۔ہر ایک کا دل اس کا اپنا گھر ہے ۔اس نے بہت دستک دی ،دروازہ نہیں کھلا تو کسی کے گھر میں زبردستی داخل ہونا محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ۔ویسے بھی آغا اس کی ذات میں ضم تھا ۔وہ کہیں بھی رہے اس کی روح میں وہی آباد تھا ۔یکطرفہ محبت دکھ دیتی ہے مگر یہ دکھ ہی تریاق کا کام کرتا ہے ۔سب سے بڑی ڈھارس ہوتا ہے ۔اس کے پاس آغا نہیں تھا مگر اس کا خیال تھا جو اسے بےخیال رکھتا تھا ۔
اس نے کھانے کی ٹرے دادی جان کے سامنے رکھی ۔وہ بھی موڑھا کھینچ کر وہیں بیٹھ گیا تھا ۔
تینوں خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے اچانک سرمد بولا
"تم نے پوچھا نہیں ”
"کیا؟”
دادی نے جو کہا
"کیوں پوچھتی تم اپنا سمجھتے تو جہاں پانچ سال کی کہانی سنائی تھی یہ بھی بتا دیتے”

سرمد نے بڑے غور سے اسے دیکھا ۔وہ پرسکون کھانا کھا رہی تھی ۔
"ارے میں نے روکا تھا کیا پتہ بچپن کی طرح رٹ لگا دیتی مجھے آغا سے شادی کرنی ہے ”
دادی جان نے کہا تو بےساختہ ان دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا
"ارے میری دادو تب میں چھوٹی تھی شاید آغا نے بھی مجھے اسی لئے نہیں بتایا ”
وہ مسکرا کر بولی تو سرمد نے سکھ کا سانس لیا۔
اسی شام دونوں آمنے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے ۔وہ کرن کی تمام تصویریں دکھا رہا تھا ۔
"آغا چوائس تو اچھی ہے ۔کلاس فیلو ہے”؟
"نہیں اس کی فیملی نے مجھے پسند کیا ہے یہ ایک بار ملی تھی مجھے ”
"کیوں ملی تھی ؟”
اس کی زبان سے پھسلا۔
"وہ مجھے دیکھ کر ہاں کرنا چاہتی تھی ۔دادو اور بابا کی مرضی بھی تھی”
آج کیسے کیسے انکشاف ہو رہے تھے ۔سب کو معلوم تھا سوائے اس کے ۔
دکھ نے اس چہرے پر تاثر چھوڑا تھا
"کیا ہوا مومی ؟”
وہ بےچین ہوا ہمیشہ کی طرح
"کچھ نہیں میں سوچ رہی تھی تم چھ فٹ سے زیادہ لمبے ہو اس کو ہیل پہننا پڑے گی”
وہ ہنسی
"اچھا ذرا کھڑے ہو ”
وہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا
"یہ دیکھو”
وہ ایک دم اس کے سینے سے لگ گئ”
میں تمہارے دل کی دھڑکن سن سکتی ہوں مگر اسے ہیل پہن کر سننا ہو گی "۔
سرمد کو اس سے یہ توقع تو نہیں تھی ۔اس نے ایک دم اسے پیچھے کیا
"کیا ہوا میں تو صرف بتا رہی تھی رومانس نہیں کر رہی تھی آغا اور میں نے اپنی ہتک محسوس کی ہے مجھ سے چھپایا گیا ”
وہ خفا سی ہو کر دادو کی طرف چلی گئی۔ سرمد کی نظر شرٹ پر پڑی تو کچھ گیلا تھا
آنسو کے دو نشان۔
وہ روئی تھی مگر یہ سمجھتی کیوں نہیں اس بچی کا میرے ساتھ چلنا ناممکن ہے ۔میری اور اس کی سوچ میں بہت فرق ہے ۔سماج میں رہنے کے لئے اسے ذرا بڑی اور سمجھدار خاتون چاہیے تھی ۔وہ بھی اندر ہی اندر کڑھتا رہا
اس کے بعد تو کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا
سب شہر چلے آئے تھے ۔
اس روز صبح سویرے کافی چہل پہل تھی
دادو اور اماں شاپنگ کی لسٹ کو حتمی طور پر ترتیب دے رہی تھیں ۔بابا نے اعلان کر دیا تھا ۔مومی آغا کے ساتھ کچھ شاپنگ کر لے کرن اور اسکی فیملی وطن واپس آ چکی ہے لہذا دیر مناسب نہیں ۔
مومی نے انکار نہیں کیا تھا حالانکہ آج اسے تیز بخار تھا ۔
سرمد نے اسے آتے دیکھا تو گاڑی سٹارٹ کی
وہ خاموشی سے آ کر بیٹھ گئ ۔سرمد نے بات کئے بنا گاڑی آگے بڑھا دی ۔کافی دیر خاموشی رہی تو وہ پریشان ہو گیا۔
"کیا بات ہے مومی” ؟
"کچھ نہیں ”
"چپ کیوں؟”
"نہیں تو
"میں تو سوچ رہی تھی تمہاری دلہن کو تو ہر رنگ سجے گا ”
"اچھا "۔۔۔۔وہ ہنسا ۔
شاپنگ مال میں اس نے اس کے لئے ٹی پنک لہنگا اور ولیمے کے لئے گرین پشواز خرید لی
"آغا کچھ کمنٹ تو کریں یا کرن کو تصویریں بھیجیں ”
اس کی مسلسل خاموشی سے چڑ کر بولی سرمد اس کو نہیں بتا سکا وہ ہر جوڑا شیشے کے سامنے خود کو لگا کر دیکھ رہی تھی جبکہ اسے پہننا کرن نے تھا ۔وہ الجھ گیا تھا

وہ سیڑھیاں اتر رہے تھے نجانے سرمد کو کیوں محسوس ہوا ۔مومی ذرا سا لڑکھڑائ ہے
"مومی کیا بات ہے یار ”
اس نے جونہی اس کا ہاتھ پکڑا وہ اس کی بانہوں میں جھول گئ ۔
"اتنا تیز بخار ”
وہ سب کچھ بھول گیا اس نے مومی کو بانہوں میں بھرلیا
"۔مومی اوہ مومی میری جان آنکھیں کھولو نا ”
وہ۔پریشانی میں اس پر جھکا کہہ رہا تھا
"آغا وہ شاپنگ ۔”
"۔۔۔ بھاڑ میں گئی شاپنگ اب نہیں کرنی چلو۔ گھر اور دوا لو ”
اس نے اسے آرام سے گاڑی میں بٹھایا اور گھر لے آیا ۔
شام تک اس کی طبیعت بہتر تھی مگر وہ بت بنا وہیں بیٹھا تھا۔
اس نے آنکھیں کھولیں آغا کے چہرے پر تفکرات کا ایک جہاں دیکھا ۔
"آغا وہ ڈریسز منگوا لئے نا ”

"شکر ہے تم کچھ بولی کیسی ہو مومی”
۔۔ اس نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ۔
"میں ٹھیک ہوں اب مگر وہ ڈریسز؟”

اس نے مندھی آنکھوں سے آغا کو دیکھا
"یار کچھ دیر بھول جاؤ وہ ڈریسز۔تم بخار میں تپ رہی تھی اور مجھے نہیں بتایا چل پڑی مارکیٹ ”
۔۔۔اغا اسے ڈانٹ رہا تھا ۔یہ لڑکی اسے بہت عزیز تھی ۔
"آپ تو میرے چہرے سے اندازہ لگا لیتے تھے پھر ؟ ”
کتنا گلہ تھا اس کے لہجے میں
"اوکے سوری اب میں تمہارے لئے کچھ کھانے کے لئے لے آؤں "اس نے مومی کی بات ان سنی کر دی
وہ اٹھا
"باقی سب کہاں ہیں ؟”
ہر طرف خاموشی تھی
وہ دادی جان سب کو کرن کے گھر لے گئ ہیں
نجانے مومی کا وہم تھا – آغا یہ بات اس کو بتاتے ہوے کچھ ہچکچا رہے تھا
"ادھر بیٹھو ”
۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سرمد سے التجا کی
"آغا سرمد”
مومی نے اس کا پورانام پکارا اس نے چونک کر اسے دیکھا
بڑی بڑی ہرنی جیسی آنکھوں میں سرخی تھی سیاہ زلفیں بکھر کر اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں ۔
"بولو مومی ”
"کیا ہم دوسرے کے دوست نہیں رہے ؟”
"ایسا کس نے کہا؟”
"تمہارا رویہ بتا رہا ہے ”
"ادھر ہاتھ دو”
اس نے مومی کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔
"ہم دوست ہیں مومی تم جو سوچتی ہو وہ نہیں ہو سکتا تھا ۔میں تم سے کافی بڑا ہوں میں تم سے بےپناہ انسیت رکھتا ہوں ۔پانچ سالوں میں پل پل تمہاری خبر رکھی میں نے بس چاہتا تھا یہ خیال نکل جائے تمہارے دل سے”
یہ کہہ کر وہ رکا ۔وہ سر جھکائے اس کی بات سن رہی تھی ۔
"اگر پانچ سال بعد تم کو اپنے بارے یہی خبر دیتی تو تم خفا نہ ہوتے ”
اس نے آہستگی سے نظریں اٹھائیں
پتہ نہیں یہ اسکا وہم تھا یا اسے لگا اس کے ہاتھ پر آغا کی گرفت زیادہ ہوئ اور لمحہ بھر کے لئے رنگ اڑا ۔
"چلو سوری کر لیتا ہوں ”
۔وہ دھیرے سے مسکرایا
سارے فنکشن ہو گئے تھے وہ اسلام آباد تھی ۔دراصل ویزہ اور ٹکٹ دونوں آگئے تھے اور اسے خود ہی لینے جانا تھا ۔اللہ نے بھی بروقت مدد کی تھی اس کی ۔اس نےمزید تعلیم کے لئے اپلائ کیا ہوا تھا ۔وہ شادی والا دن بھی وہیں گزارنا چاہتی تھی مگرآغا کا شکوے سے بھرپور فون آیا تھا
"آج تو آ جاؤ پلیز "/

اس کی آواز میں کچھ تھا اسے سمجھ نہیں آیا مگر پہلی ہی فلائٹ سے وہ گھر پہنچی اور پھر پالر ۔۔۔ دادو کو بتا دیا تھا وہ سیدھا ہوٹل پہنچے گی۔
"مجھے بہت اچھا تیار کرنا ”
۔اس نے میک اپ کرواتے ہوئے کہا
"فکر نہیں کرو ”
ٹی پنک پشواز میں وہ غضب لگ رہی تھی
وہ ہوٹل پہنچی تو سب سے ملتے ملاتے وہ اسٹیج تک پہنچ ہی گئ ۔سرمد نے ایک لمحہ اسے دیکھا ۔وہ بنی سجی اپنا دوپٹہ سنبھالتی اس تک آنا چاہ رہی تھی ۔
سرمد دلہن کے پہلو سے اٹھا اور بےساختہ اس کا ہاتھ پکڑ کر سٹیج پر لے آیا
"آغا تم دنیا کے سب سے ڈیشنگ مرد لگ رہے ہو اور کرن جی آپ سب سے خوبصورت دلہن ۔”۔اس نے کرن کو مخاطب کیا تو کرن نے نظریں اٹھائیں ۔وہ مسکرائی مگر اس کی نظر آغا کے اس ہاتھ پر تھی جس میں مومی کا ہاتھ تھا
"آغا مجھے بھی بٹھائیں نا ۔”
۔۔ اس نے لاڈ سے کہا
"ہاں آؤ ادھر بیٹھو”
وہ اس کے لئے جگہ بنا رہا تھا اس کی ہنسی نکل گئی "۔آپ دونوں کے بیچ آغا؟”

سرمد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔وہ اس کے سامنے تھی ۔اس کی آنکھیں دہائیاں دے رہی تھیں مگر لب مسکرا رہے تھے ۔اس کے چہرے کا کرب کسی کو نظر نہیں آیا مگر آغا کو لگ رہا تھا شاید وہ مر جائے گی یا شاید وہ جی نہیں پائے گا ۔یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا ۔وہ کیوں جی نہیں پائے گا اور یہ خیال آج ہی کیوں آیا اسے
آغا بیٹھو اس نے دلہن کے ساتھ اسے بٹھایا اور خود اس کی طرف آ کر سائیڈ پر بیٹھ گئ ۔
"ارے دلہن کون سی ہے بہن کیا بیک وقت دو لے آئیں پوتے کے لئے ”
۔۔۔کسی کا فقرہ تھا مگر وہ گھبرا کر اٹھ گئی ۔

بابا نے شور ڈالا ہوا تھا ۔جلدی کرو فلائٹ مس ہو جائے گی ۔
"آتی ہوں بابا توبہ ہے ویسے ”
وہ دروازے کی جانب مڑی تو ٹھٹھک گئی۔
"آغا دلہن کے کمرے میں جاؤ یہاں کیا کر رہے ؟.”
"ملو گی نہیں مجھ سے” ۔
"نہیں اب تم پرائے ہو ”
"میں پرایا کیسے ہو گیا یہ بھی نہیں کہا تم چھوڑ آؤ ”
"تم نے تو ویسے ہی چھوڑ دیا آغا ”
اب اس نے بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اس کے سینے پر سر رکھ دیا
"عمر کہاں سے آ گئی تھی محبت میں آغا ۔
میں اتنی گئ گزری تو نہیں تھی آغا ”
وہ رو رہی تھی ۔
"مومی "۔بابا کی آواز
آغا نے پیار سے اس کی لٹ پیچھے کو کی اور اس کے لئے راستہ چھوڑا ۔
"اور سنو اپنی دلہن کو چھوڑ کر مجھے ڈراپ کرنے جاؤ گے تو یہ بھی تاریخی کام ہو گا اور یہ کریڈٹ میں تمہیں نہیں لینے دوں گی ”
یہ کہہ کروہ بھاگتی ہوئی نیچے اتر آئ ۔بابا نجانے کیا بول رہے تھے اس کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر ایئرپورٹ پہنچ کر پتہ چلا کہ فلائٹ کل شام جائے گی ۔
"بابا تین تو بج رہے ہیں صبح گھر جائیں گے ”
"پگلا گئی ہے چل چلیں ”
جب گھر پہنچے تو ساڑھے چار تھے ۔وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی ۔
نجانے کب آنکھ کھلی ۔کچھ شورشرابہ تھا
دلہن چلی گئی وہ کہہ رہی تھی مجھے اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا ۔ماما مجھے طلاق چاہیے ۔بس آپ پیپر تیار کروائیں ۔آپ سوچ سکتی ہیں ایک بجے یہ کمرے میں آیا تو کرسی پر بیٹھ گیا ۔میں نے کئ بار خیریت پوچھی مگر یہ بت بنا رہا ۔آپ کو یہی ملا تھا میرے لئےوہ چیختی چلاتی چلی گئ تھی ۔
وہ ایسے بیٹھی تھی کاٹو توبدن میں لہو نہیں۔

"ارے میرا بچہ اسے کیا ہو گیا ”
دادو کی آواز پر جیسے اس کی جان نکل گئ وہ ننگے پاؤں باہر بھاگی
وہ زمین پر بےسدھ پڑا تھا
"آغا بولو آغا خدا کے لئے” ۔ وہ مسلسل چیخ رہی تھی ۔اسے گھر لے جاؤ ۔بابا نے ماں سے کہا ۔
"نہیں ”
"میں چپ ہو جاتی ہوں وہ ایک دم چپ ہو گئی”
ڈاکٹر بتا رہا تھا وہ کسی شدید صدمے سے بے ہوش ہے ۔ٹیسٹ ہو گئے ہیں
"میں اندر جا سکتی ہوں ”
وہ اٹھ کر ڈاکٹر کے پاس آ گئی۔
بابا ساری زندگی جو بات نہیں سمجھ سکے تھے ،وہ سمجھ گئے تھے ۔
"اسے پاس بیٹھنے دیں ڈاکٹر”
"دیکھیے وہاں شور نہیں کرنا ”
ڈاکٹر نے اسے خبردار کیا۔
"پرامس نہیں کروں گی ۔کبھی نہیں کروں گی”
آغا آنکھیں موندھے بےسدھ پڑا تھا ۔وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگی ۔
"مومی”
۔۔۔۔ایک ہلکی سی سرگوشی
وہ بےچین ہو گئی ۔باہر بھاگی ڈاکٹر نے جلدی سے اسے چیک کیا ۔
اس کے ہوش آنے پر سب خوش تھے ادھر بابا دلہن والوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔انھوں نے طلاق کے کاغذ تیار کروا لئے تھے ۔دادو نے کافی روکا ،سمجھایا مگر ان کی ناں، ہاں میں نہ بدلی

شام کو جب بابا وارڈ میں آئے تو دادو سرمد کو سیب کاٹ کر دے رہی تھیں اور وہ اسی طرح خاموش بیٹھی تھی ۔
"سرمد کیسے ہو اب ؟”
"ٹھیک ہوں بابا ”
کل تو فلائٹ لیٹ تھی آج مس کرو گی کیا۔
بابا نے اسے دیکھا
"یہ کیا ہے ؟”
اس نے ان سنی کر دی اور ان کے ہاتھ میں کاغذات کی طرف اشارا کیا ۔
"ہاں بھئ سرمد اب دوبارا بے ہوش تو نہیں ہو گے ”
سرمد نے انھیں دیکھا وہ مسکرا رہے تھے
"تم تو چلو ۔۔۔۔ وہ فلائٹ تمہاری حساب سے تو نہیں چلے گی "۔۔۔بابا کی آنکھوں میں ہلکی سی شرارت تھی۔
اس نے گھبرا کر آغا کو دیکھا
"بابا چلی جائے گی ابھی پریشان ہے "۔
اس سے پہلے بابا اور کہتے ۔اماں گھر جا رہی تھیں
وہ اماں کے ساتھ گھر آ گئی ۔
"بغیر کہے اس کی بات سمجھ لیتے ہو پھر ایسا کیوں کیا بیٹے ”
بابا بیٹھ گئے تھے ۔
دادو بھی چونکیں ۔
"پتہ نہیں بابا ۔”
اس نے آنکھیں بند کر لی یہ اس بات کا اعلان تھا وہ اس موضوع پر کوئ بات نہیں کرنا چاہتا ۔

چھ ماہ اور گزر گئے تھے ۔کرن نے کیوں طلاق لی سرمد کیوں بے ہوش ہوا اور اتنا کچھ ہونے کے باوجودوہ بہت خوش رہنے لگا تھا ۔بابا سے دوستی اور گہری ہو گئ تھی ۔وہ فی الحال کچھ نہیں کر رہی تھی۔اب آغا کسی کا نہیں تھا اسے فرار نہیں چاہیے تھا ۔مگر اب وہ زیادہ بولتی نہیں تھی ۔چپ رہتی تھی ۔ایک طوفان تھا جو آ کر گزر گیا ۔وہ ابھی اس کے زیر اثر تھی ۔آغا بھی اسے صرف کھانے پر ہی نظر آتا

اس روز گھٹاؤں نے نیل گگن کو گھیر لیا تھا ۔سرد ہوا کے جھونکے بڑے خوشگوار تھے۔وہ جامن کے درخت کے نیچے سوئی بلی کے احساسات سمجھ سکتی تھی کہ وہ گرمی کے موسم میں ایسی ٹھنڈی چھاؤں میں کیا محسوس کر رہی ہو گی مگر ادھر ایک وہ تھی۔جسکے جزبات کو محسوس کرنے والا کوئی نہ تھا ۔وہ اس جگہ سے ہٹ گئی اور کمرے سے باہر نکل آئ ۔وہ سیڑھیاں اترنےلگی تو ایک دم دادو اور آغا کی آواز پر رک گئی ۔
پتر اس رات آخر ایسا کیا ہوا تھا جو اتنا ہنگامہ ہو گیا ؟
"دادو مجھے عشق ہو گیا تھا "۔اس کی بات سن کر دل کی شاید ایک دھڑکن مس ہوئی
"اے لو پھر جھگڑا کیوں ہوا ؟”
"دادو میں اسے دیکھ نہیں سکتا تھا ۔میں جسے دیکھ رہا تھا وہ میرے ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی دادو میری زندگی جا رہی تھی ۔مجھے لگ رہا تھا میرا دل بند ہو جائے گا ۔اس کی آواز میں نمی تھی ۔ پہلی بار مجھے لگا میں زندہ نہیں رہ سکوں گا اس کے بغیر ۔مجھ پر خود آگہی کا در وا ہوا تو یہی خیال آیا ۔میں کیسے جیوں گا ” یہ انکشاف مجھے پتھر بنا گیا تھا ۔
"ارے یہ پہلیاں بھجواتا رہے گا اماں۔
یہ میرا پتر بالکل پاگل ہے اس کو آپ کی پوتی سے شادی کرنی تھی نالائق یہ سوچتا رہا کہ وہ اس کی لاڈلی ہے مگر بہت چھوٹی ہے ۔پھر دیکھ لیا سب ۔”
سرمد نے سر جھکا لیا
"کرن کو بتا دیتا کتنے الزام اپنے سر لئے ”
"کیا بتاتا میں دادو وہ یقین نہ کرتی۔ مجرم ہوں اس کا مگر مومی کی معصوم محبت اتنی طاقتور تھی کہ میں بےبس تھا ”

"اچھا جو ہوا یہی تقدیر میں تھا ۔ہونی کو کوئ ٹال نہیں سکتا ”
بابا نے شفقت سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا

وہ سکون سے واپس چلی گئ ۔کھڑکی کے پٹ وا کئے تو سرد ہوا کا جھونکا اسے چھو گیا
"مجھ سے شادی کرو گی مومی ؟”
آغا کی آواز ۔۔۔
"مجھ سے کچھ کہا ؟ ”
وہ مڑی
"ہاں جی ویسے میں جانتا ہوں تم نے میری ساری باتیں سن لی ہے ”
سرمد نے ادھر ادھر دیکھتے یہ جملہ بولا تو وہ ہنس پڑی ۔
"سوچوں گی ۔۔۔۔ ”
"دماغ تو ہے نہیں تمہارے پاس ”
"دل تو ہے آغا اس کی سچائی تم تک پہنچ گئی میرے لئے اتنا کافی ہے ”
۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں روشنیاں بھر گئ تھیں ۔
مجھ پر خود عیاں نہیں تھا مگر اس انکشاف مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔میں تمہارے بغیر جی نہیں سکتا
آغا نے اس کو پہلی بار بہت محبت اور حق سے دیکھا ۔ تو اس نے پرسکون ہو کر سر اس کے شانے پر رکھ دیا ۔

 

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. گمنام

    جون 9, 2022

    عمدہ!!

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی