افسانہ

تمام دکھ ھے : فریدہ غلام محمد

میں کیا لکھوں ؟میرے پاس شاید کوئی ہنر نہیں ،میں تو ایک چھوٹی سی دنیا میں قید ھوں ۔ماہی بےآب کی طرح تڑپتی ھوں ۔میرے پر ہیں مگر اڑ کر کہاں جاؤں ۔میری سوچ بھی بکھری ھوئی ،میرے آنسو بھی چھلکے ھوئے،میرا دل بھی آرزوؤں کی چھوٹی چھوٹی قبروں میں بٹا ھوا۔ جس کی ہر قبر پر لکھا ھے یہ آرزو تھی اب حسرت بنی ھوئی یہاں دفن ھے اس حسرت کا محل وقوع میرا دل ھے ۔میرے دل تک کس نے پہنچنا ھے یہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔
مجھے یاد ھے میں چھوٹی تھی تو بھی ہر شے کو بڑے غور سے دیکھتی تھی نجانے کیوں یہ لگتا تھا یہ منظر چھن جائے گا ۔ پھر کبھی نظر نہیں آئے گا مجھے زندگی نے مارا نہیں مفلوج کر دیا ھے ارے یہ میں تھی جو ایک سانس میں غالب دوسری سانس میں ورڈز ورتھ سنا دیتی تھی ۔یہ میں تھی جس نے ایک بار جو صفحہ پڑھ لیا پھر اسے نہیں دیکھا ۔دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی مگر زندگی کی کتاب بہت ادق تھی جس کو پڑھے بغیر چھوڑا نہیں جا سکتا
میری زندگی کی کتاب کا کون سا صفحہ سنو گے تم
جب میں جیل کے دروازے پر اپنی آیا کے ساتھ رک جاتی تھی ۔ایک لمبا تڑنگا سپاہی آتا ۔ایک ہاتھ میں ٹفن پکڑتا اور دوسری طرف سے میرا ہاتھ۔ بہت سارا فاصلہ طے کر کے ایک کمرے میں پہنچ جاتا ۔میں بہت چھوٹی تھی ۔میں گھبرا جاتی تھی ۔ مجھے بابا نظر نہیں آتے تھے ۔تب تاش کھیلتے ھوے دو آدمیوں میں سے میرے بابا کو آواز دیتا ۔ صاحب بےبی آئی ھے ۔میری نظر ان کے ساتھ سفر کرتی تو پتہ لگتا میرے بابا چارپائی پر سوئے ھوئے تھے ۔مجھے دیکھ کر اٹھتے اور بہت پیار کرتے ،سینے سے لگاتے اور پھر آہستہ سے ٹفن کھولتے ۔خود کچھ نہیں کھاتے تھے بس چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر مجھے کھلا دیتے اور باقی کھانا دوسروں کو دے کر مجھے کہتے "جاؤ میری مِٹھی تم نہ آیا کرو یہاں”
میرے بابا ،ماں آپ کے لئے لاھور گئی ہیں اس لئے آیا کے ساتھ مجھے بھیجا ”

"بس اب نہیں آنا میرے آنسو صاف کرتے مجھے پیار کرتے اور جانے کا کہتے ۔میں مڑ مڑ کر دیکھتی رہتی جب تک بابا نظر آتے ۔
اس کے بعد وہی سپاہی ،وہی میں اور وہی درد بھری شام۔
وہ صفحہ سناؤں جس پر میری گستاخیاں لکھی ہیں۔ جہاں میں نے اپنی مرضی سے پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ بابا کا دل توڑ دیا یا وہ صفحہ سناؤں جس پر لکھا ھے کہ پھر بابا نے مجھ سے سمجھوتا کر لیا ۔اس لئے نہیں کہ وہ مجبور تھے یا انھوں نے ہار مان لی تھی ۔بابا نے مجھ سے اتنی محبت کی وہ میرے بغیر رہ ہی نہیں سکے۔ میں جو بننا چاہتی تھی اس میں دل چسپی لینے لگے۔

وہاں سے سناؤں جہاں ایک شام سڑک پر دھول سے اٹی ھوئی ماں میرے گلے لگ کر رو پڑیں ۔

"تیرے بابا مر گئے بیٹے "یہ الفاظ نہیں انگارے تھے ۔ مسافرت ،یتیمی اور ہم چار زخمی۔ میں بابا کی میت چومتی تھی ان کو ،کہتی تھی اٹھو بابا مجھے دیکھو ،ماں کو دیکھو ہم نہیں جی پائیں گے وہ نہیں بولے اور ہم بول بول کر چپ ھو گئے۔

وہ صفحہ پلٹوں جب اپنے گھر بار کی ھوئی ارمانوں بھرے دل کے ساتھ یہاں پیار ملا نہ عزت شک اور بدگمانی کی ھوائیں میرے دل کے چراغ بجھاتی رہیں ۔یہ بتاؤں کہ نئے گھر میں آ کر لگتا تھا یہاں خدا کوئی اور ھے ۔یہ بتاؤں کہ کتنی گالیاں پڑیں ۔
یہ بتاؤں کہ نامعتبری کے دکھ نے نڈھال کر دیا ۔
یہ بتاؤں کہ بیٹا نہ دے سکنے کی پاداش میں سر جھکا ہی رہا۔
کون سی ایسی رات آئی جب آنسو نہ بہے ھوں۔
میں تو یہ بھی بھول گئی کہ میں پڑھی لکھی عورت ھوں جس نے بابا کے کتنے خواب پورے کرنے تھے ۔
ایک بار قلم اٹھایا تو پتہ چلا زمانے گزر گئے ہر کوئی آگے بڑھ گیا میں وہیں کھڑی رہ گئی ۔
وہ صفحے بھی ہیں جہاں میری محبت کی کہانی ھے ۔
اصل میں یہ سچ ہی ھے جس کو سب چاہیں اسکو کبھی محبت نہیں ملتی میری محبت ہجر کے پنوں میں درج ھے ان پنوں میں ہجر کا دکھ ھے،بےوفائی کی داستان ھے۔بہت اپنا ھونے سے اجنبی ھونے تک کا سفر ھے ۔وچھوڑے کی سسکیاں ہیں وہ دعائیں ہیں جو پانے کے لئے کی تھیں ،بانسری کی کوک ھے ،دل سے اٹھتی ھوک ھے،دیوانگی ھے ،فرزانگی ھے مگر اس کے بعد صبر بھی ھے ،شکر بھی ھے ،سمجھوتا بھی ھے۔

اور سناؤں ۔
ایک ہی گھر میں دو اجنبی رہتے ہیں ۔وہ محرم راز ہیں ان کے بچے ہیں مگر وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہیں یہاں تک کے ایک کمرہ ایک بستر مگر سردمہری اور اجنبیت۔
اور بتاؤں۔

چلو تم بتاؤ ان حالات میں کیا لکھوں
کوئی کتاب لکھوں ،کوئی دیوان لکھوں ،مسکراوں کہ روؤں ۔
مجھے تو عرصہ ھو گیا میں نے دنیا نہیں دیکھی۔ مجھے کچھ پتہ نہیں میں کس دنیا کی مسافر ھوں مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ میں زندہ ھوں یا مر گئی۔
صفحات بےحساب ہیں جی چاہتا ھے تم کو سناتی رہوں لیکن کتنا سنو گے تھک جاؤ گے کیونکہ تم ایک اماوس کی راتوں میں نکلنے والے چاند ھو اور تم تو پھر نئے ھو کر پہلی کو جگمگانے لگو گے مگر مجھے ایسے ہی رہنا ھے اپنے تمام دکھوں سمیت۔
وہ روتے روتے اس چاند کو تک رہی تھی جو زرد تھا اسکے چہرے کی طرح اور اسے اپنی کہانی کے ٹکڑے سنا رہی تھی ۔
"ادھر آؤ کومل ”
اماں کی آواز پر وہ پلٹی اس کی بوڑھی ماں رنج و غم کی تصویر بنی کھڑی تھی ۔
"آ آپ جاگ رہی ہیں "نظریں جھک گئیں ۔
"تو میرے دل کا ٹکڑا ھے تجھے اسطرح دیکھ کر میں سو سکتی ھوں ادھر آ دو گھڑی بیٹھتے ہیں پھر نماز کا وقت ھو جائے گا "انھوں نے دو کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہیں شاید الفاظ جمع کر رہی تھیں آخر کار بولیں۔
"دیکھو کومل ہر انسان اپنی زندگی اپنے انداز میں جیتا ھے تو جب بھی دیکھتی ھے فلاں لکھ رہا ھے فلاں یہ کام کر رہا ھے تو تم کو لگتا ھے کہ تم ضائع ھو گئ یا کر دی گئ "یہ کہہ کر اماں چپ ھوئیں۔
"بولیں نا اماں ‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر ان کے قدموں میں جا بیٹھی ۔
",بیٹے تم نے ایک بامقصد زندگی گزاری ھے جو عورت اپنے شوہر کے گھر اسکی مرضی پر اپنی مرضی قربان کر دیتی ھے ۔جو اچھے برے وقت میں اس کے ساتھ کھڑی رہتی ھے ۔جو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر دیتی ھے ۔جو اپنے میکے کی شہزادی ھونے کے باوجود یہاں کنیز بن کر بھی ہنسی خوشی رہتی ھے اس سے بڑھ کر کون اچھا ھو گا ۔وہ بندے بڑے خاص ھوتے ہیں جن کو اللہ صاحب چنتے ہیں اور تم بہت خوش نصیب ھو جانتی ھو کیوں ؟”
اس کی خاموشی نہیں ٹوٹی۔
تم بھلے جو کرنا چاہتی تھی نہیں کر سکی مگر کیا تم کو یہ خوشی نہیں تم اللہ صاحب کی گڈ بکس میں ھو وہ مسکرائیں ۔
"اماں آپ بھی نا ‘‘
"کیا”۔
"بہت اچھی ہیں ”
"اور تمہارے بچے کیا کہتے ہیں بھلا ؟”اماں کے لہجے میں بشاشت تھی۔
"وہ کہتے ہیں میں دنیا کی سب سے اچھی ماں ھوں”
"بس کتاب کے باقی صفحات میں یہ سب لکھو اور یقین کر لو تم بھی دنیا کی کامیاب ترین انسان ھو ۔کھوکھلے لوگوں سے متاثر نہ ھوا کرو ۔ یہ جو دکھتے ہیں وہ ھوتے نہیں ۔اماں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا "؟۔میں وضو کر آؤں پہلے اماں”

"ہاں جاؤ اور جب وہ گئی تو انھوں نے اپنے آنسو صاف کئے ۔ان کا کلیجہ جیسے کسی نے کاٹ ڈالا تھا مگر ۔وہ جانتی تھیں کتنا کٹھن سفر کر رہی تھی وہ مگر یہ بھی سچ تھا وہ صبر و رضا کا پیکر تھی ۔وہ اپنی ذہین وفطین بیٹی کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیں گی۔
دل ہی دل میں عزم کرتی وہ بھی نماز کے لئے اٹھ گئیں ۔
ادھر وہ سوچ رہی تھی پتہ نہیں کیوں وہ اتنی پرملال ھو گئی تھی ۔ہر انسان خود ایک کتاب ھے جو کاتب تقدیر نے لکھی ھے یہ اور بات کہیں انسان خود راستے بدلتا ھے ۔راستہ بدلنے سے منزلیں بھی گم ھونے لگتی ہیں اور اس کو یاد تھا اس نے راستہ کب بدلا تھا ۔جب بابا کی بات نہ مان کر اس نے اپنی مرضی کی تھی ۔بعض اوقات انسان خود غلطی کرتا ھے ۔اس نے بھی کی۔ اس نے اپنی زندگی کی کتاب کی یہ غلطی پکڑ لی تھی۔ اب اسے کسی سے کوئی گلہ نہیں کرنا ۔آخر زندگی کی کتاب کے آخری باب پر موت کے سوا لکھا کیا ھے ۔

 

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. ادب سرائے

    ستمبر 2, 2020

    شاندار

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی