فاروق سرور
پشتو ادب سے
بادل گرج رہے ہیں اور تیز بارش ہو رہی ہے۔
اس سے پہلے اردگرد کے پہاڑوں پر پہلے ژالا باری اور پھر ہلکی سی برف باری ہور ہی تھی ، جس کی وجہ سے اب پہاڑوں کا رنگ سفید ہے۔لیکن اس وقت پھر تیز سی بارش اور اس کی خوبصورت سی موسیقی بھری آواز ۔
اس کے ذہن میں بھی ایک طوفان ہے، حیرت کا طوفان۔تعجب کا طوفان۔ایک ایسے سوال کا طوفان ،جس کا جواب اس کے ذہن میں نہیں آ رہا۔
اس تیز طوفان اور گرج چمک میں اس کے سامنے ایک خوبصورت لڑکی ناچ رہی ہے اور اس کا رقص ہے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
اس کا بھی جی چاہتا ہے کہ وہ بھی ہمسائے کی اس حسینہ کے ساتھ رقص کرے اور اس حسین برسات سے لطف اندوز ہو۔لیکن اسے خوف ہے لڑکی کے بھائیوں اور باپ کا۔وہ اپنے اس خواہش کو جتنا بھی دبانا چاہ رہا ہے،وہ خواہش دب نہیں رہی۔
بالآخر اس سے اس کی یہ خواہش برداشت نہیں ہوتی اور وہ لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ ناچنا چاہتا ہے۔
” تو پھر آ جاؤ ،تمہیں کس نے روکا ہے۔”حسین سی لڑکی اپنے سرخ لباس میں رقص کرتے ہوئے اپنے مست اداؤں کے ساتھ اسے دعوت دیتی ہے۔
"لیکن مجھے تمہارے باپ اور بھائیوں سے ڈر لگتا ہے، وہ مجھے مار دینگے۔”
"بہت بزدل ہو ،میں لڑکی ہو کر نہیں ڈرتی، لیکن تم لڑکے ہو کر ڈر رہے ہو ۔”
اب ہمسائے کا لڑکا دیوار ٹاپتا ہے۔
یہ لڑکی کی حویلی سے منسلک چھوٹا سا باغ ہوتا ہے،جو بہت سارے درختوں سے بھرا ہوتا ہے۔اس وقت تو یہ تمام درخت خشک ہوتے ہیں۔لیکن بہار میں ہرے بھرے اور پھولوں اور پھلوں سے بھرپور۔
لیکن لڑکا اب بھی رقص نہیں کرتا اور خوف کا بھوت اسے دبوچے ہوئے ہوتا ہے۔
"ناچو نا ” سرخ لباس میں ملبوس خوبصورت سی لڑکی بارش میں مسلسل گھوم رہی ہوتی ہے ، رقص کر رہی ہوتی ہے اور اس کے رقص کے لیے اصرار کر رہی ہوتی ہے۔
"لیکن تمہارے گھر والے.”
"وہ سامنے ایک شے تمہیں نظر آرہی ہے،بس اس کی سلامتی کی دعا کرو”
لڑکا جب باغ کی لکڑی کے چھوٹے سے دروازے کو دیکھتا ہے، تو وہاں دروازے کی زنجیر پر ایک بڑا سا تالا لٹک رہا ہوتا ہے۔